Books

کتابیں

قدیم و نادر کتب: وہ کتب جو پچاس یا سو سال قبل شائع ہوئیں قدیم کتب ہیں اور یہ نادر ہو جاتی ہیں جب کوئی خصوصیت ان کے ساتھ شامل ہو جائے مثلاً مصنف کا دستخط شدہ، پہلا نسخہ، نایاب نسخہ کوئی خاص ایڈیشن خوبصورت خطاطی یا جلد، تصاویر یا خطی تصاویر، شخصیات کے خصوصی ذخائر بھی نادر ہیں کیونکہ خاص دلچسپی کے موضوعات پر مخصوص ہیئت میں لوازم موجود ہیں مثلاً مصنف کا خود تحریر کردہ قلمی نسخہ وغیرہ۔ قدیم کتب کی اہمیت یہ ہے کہ یہ کتب خانہ کے ذریعہ ماضی کو حال سے ملاتی اور مستقبل کے لئے علمی و ادبی سرگرمیوں کے دروا کرتی ہیں۔

لائبریری میں مخصوص گوشے قائم کیے گئے ہیں ان میں ایک گوشہ قدیم و نادر کتب کا بھی ہے۔ اس گوشہ میں ۱۱۸۲ء سے ۱۹۴۶ء تک کی کتب و رسائل شامل ہیں۔ اندراج نامہ میں ان کی تعداد ۵۰۰ ہے۔ اردو و فارسی کتب ہیں اردو و فارسی زبان و ادب کے جملہ اصناف پر کتب موجود ہیں۔ مثلاً مخدوم علی احمد کا مرتبہ “دیوان صابر” ہے جو ۱۰۸ صفحات پر مشتمل ہے لیکن باقی کتابی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں یہ دوبارہ شائع کی گئی ہے۔  ۱۱۸۲ء ہی کی مطبوعہ “فن خطاطی” ہے اس میں خطاطی” ہے اس میں خطاطی کے بہترین نمونے اور اصول درج ہیں لیکن مصنف کا نام و دیگر تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ کتابوں کی ایک معقول تعداد پر سنین کا اندراج نہیں غالباً یہ پہلے نسخے ہیں ان میں عقد ثریا، (دوبارہ شائع ہو چکی ہے) دیوان فقیر محمد خاں گویا(دوبارہ شائع ہوا) اصل لائبریری میں محفوظ ہے۔

اصناف ادب کے علاوہ اسلامیات، تصوف، اولیاء حکمت ادیان پر کتب ہیں، اس کے علاوہ مجربات کیمیا ۱۸۷۵ء کی ہے۔ جامع الادویہ ۱۸۶۷ء میں شائع ہوئی شاہنامہ فردوسی ۱۸۱۱ء کا مطبوعہ ہے۔ دفتر فصاحت ۱۸۴۶ء ہے تذکرہ معاصرین ۱۷۵۲ء نایاب ہے۔ اصولِ سیاست مدن ۱۸۶۸ء ہے۔ ملحضات الحساب ۱۲۶۲ھ، جامع النفائس ۱۸۵۹ء، براۃ الاشکال ۱۲۷۶ء، مبادی الحکمتہ ۱۸۹۱ء مطبوعہ ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے ذوق مطالعہ کی وسعت اور نیرنگی کا ثبوت یہ کتابیں سینکڑوں سال پرانی ہیں اور بیشتر کو خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہے۔ انکی درجہ بندی ہو چکی ہے۔ ان میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن کا تعلق لسان و ادب سے نہیں لیکن خدمت خلق کے لیے دوبارہ شائع کی جا سکتی ہیں۔