Manuscripts

مخطوطات

 قلم کے ذریعہ ہاتھ سے خوش خط لکھا ہوا مبیضہ مخطوطہ ہے۔ مخطوطات ادب، علم و فن کا محفوظ تہذیبی سرمایہ ہیں ان کے ذریعہ تاریخ، ادب اور علوم و فنون کا مطالعہ کرکے حقائق اور واقعات کو تلاش کر سکتے ہیں اس لیے یہ غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ، موضوع کے ساتھ ساتھ ان کی قدامت، خطاطی، مصنفی نسخہ، اولین نسخہ، ترقیمات اہمیت رکھتے ہیں۔ مخطوطہ کے ذریعہ مطبوعہ نسخہ کا تقابل کیا جا سکتا ہے۔ کاغذ، کتابت، جسامت، خط، مہر کاتب بھی مخطوطات کی اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر جمیل جالبی نے قدیم و جدید ادب پر تحریر کرنے کے لیے مخطوطات حاصل کیے اور اگر اصل مخطوطہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوا تو اسکا عکس زرِ کثیر صرف کرکے حاصل کیا گیا کیونکہ وہ بنیادی و اصل مآخذ میں موجود معلومات پر انحصار کرتے تھے۔ ان کے ذخیرہ میں اصل مخطوطات ہیں اور عکسِ مخطوطات ہیں مثلاً جان و رنر کی “اردو کی پہلی کتاب” “جامی کی سفینة الاولیاء” فورٹ ولیم کالج پیپرز” وغیرہ۔ مخطوطات اردو و فارسی اور چند دیگر زبانوں میں ہیں یہ مخطوطات تاریخ ادبِ اردو لکھنے میں کام آئے۔

مخطوطات کی نوعیت مختلف ہے زبان و ادب، علم و فن مذہب اور طب و دیگر موضوعات پر تعدادِ مخطوطات درج ذیل ہے۔ اردو زبان ۱۲، افسانوی ادب ۱ انتخابات ۵، بیاضیں ۱۱، تاریخ ۱۰، تراجم ۳، تذکرہ ۶، داستان ۲، دستاویزات ۲۔ دواوین ۲۷، رسالہ ۱، زائچہ ۱، حکمت ۱، سیاسیات ۱، قصص ۷، کلیات ۱۶، فہرستیں ۵، مضامین ۴، مرثیہ ۱، قصائد ۳، اخلاقیات ۱، مثنویات ۱۰، قطعات و رباعیات ۲۵، مذہب ۲۰، مکاتیب ۱، طب ۱، شکاریات ۱، مقالات ۱، نثر ۴، واسوخت ۳، وقائع ۱، متفرقات ۲، کل تعداد =۱۹۰ ہے اس میں اصل مخطوطات ۷۲ ہیں باقی عکس ہیں۔

مسودات: مسودات کئی قسم کے ہیں مصنفین و شعراء کے قلمی مسودات ہیں انہیں اصل مسودہ کہا جاتا ہے ڈاکٹر جمیل جالبی کے ذخیرہ میں ایسے مسودات کی تعداد ۴۶ ہے۔ یہ نہایت اہم تحریریں ہیں مثلاً تاریخ ادبِ اردو کی جلد اول، دوئم کے مسودات ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحریر میں ہیں ان مسودات پر ڈاکٹر جمیل جالبی کے اضافے ہیں۔ جلد اول و دوم کے اشارات ہیں ان مسودات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مسودہ اور دوسرے و تیسرے مسودہ میں کیا اہم تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ ضبط سہارنپوری کا قلمی ترکش ابن حسن قیصر کا اشاریہ، شمیم صہبائی کا وفات نامہ ۱۹۶۳ء میں جدا ہوگئے یہ لوگ، افسر صدیقی امروہوی کا تلامذہ ضمیر، عطا کا فارسی شاعری، ڈاکٹر جمیل جالبی کا پاکستانی کلچر: قومی تشکیل کا مسئلہ، حاتم کے اردو شاعری، مسدس و ترجیح بند، پرتو روہیلہ کے سیاسی ٹپے، منقار و چنگال مصنف نامعلوم، طلسم ہوش ربا، مصباح العثمان کا اشاریہ نیادور۔ انتظار حسین کے ناول بستی کا مسودہ، مسعود حسن شہاب دہلوی کا گل و سنگ، داغ کا انتخاب، ڈاکٹر جمیل جالبی کا جانورستان، محمد سعید اللہ خان کے مقالہ کا مسودہ میر تقی میر کی شاعری کا عروضی تجزیہ، احمد جلیلی کی کلیہ و دمنہ سامانی، اکبر علی خان عرشی زادہ کا دیوانِ غالب نسخہ عرشی زادہ، درِ شہوار غنی کا شامِ اودہ کا مطالعہ، اقتدا حسین کا کلیات عبرت، ۲ جلدیں، عزیز حامد مدنی کی چھ نظمیں، جعفر زٹلی، کلیات، غلام عباس کے افسانے اور ڈرامے۔ جمیل جالبی، شاہد احمد دہلوی منتخب مضامین، انور معظم کے منظوم ڈرامے، افسانے اور کلیات، ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کی جدید غزل، سہیل عباس کا میں اور میرا فن، مضامین، اسلوب احمد انصاری کا خطوط غالب میں نفس کی پرچھائیاں اور  انکے مضامین۔   بخط مصنف ہونے کی وجہ سے یہ اصل مسودات ہیں۔ اسکے علاوہ ایک تعداد اصل مسودات کے عکسوں کی ہے مثلاً اقبال کا نظریہ ثقافت، موہن لال انیس کی انیس الاحیاء، مقدمہ غالب کے کاغذات سید جالب دہلوی کا پانی پت کا خونی میدان، محمد جمیل خان کا قدیم اردو ادب کا تحقیقی مطالعہ، میر تقی کا تذکرہ شعراء تاریخ گو، جاوید اقبال کا بابائے اردو کے غیر مدون تبصرے، گیان چند کا تحقیق کا فن وغیرہ۔ عکسی مسودات کے ساتھ ساتھ یعنی مسودات کی نقلیں بھی موجود ہیں اور کچھ مسودات انگریزی ٹائپ میں ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی چونکہ تحقیق میں اصل مآخذ سے اکتساب کے عادی تھے۔ اس لئے اصل مسودات حاصل کئے، اصل مسودات کے عکس حاصل کئے اور مسودات کی نقلیں حاصل کیں یہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئے اور بار بارہوئے مثلاً تاریخ ادب اردو، قومی اردو لغت، جانورستان وغیرہ۔

روز نامچے: ڈاکٹر جمیل جالبی کی تاریخ وار مصروفیات کا اندراج ۳۷ روز نامچوں (ڈائریوں) پر محیط ہے ۵۱ روز نامچے سادہ ہیں جو انہیں ہدیہ کیے گئے لیکن انہوں نے اسے استعمال نہیں کیا۔ ۳۷ سال میں انہوں نے کس کس سے ملاقات کی؟ تقریب بحرِ ملاقات کیا تھی۔ کس کس کی مدد کی، کن پروگراموں میں تنہا یا بیگم کے ساتھ شریک ہوئے، کون کون انکا مہمان ہوا یہ سب معلومات ہمیں ان روز نامچوں سے ہوتی ہیں جو انکی اپنی تحریریں ہیں اور بہت سے امور پر روشنی ڈالتی ہیں۔

تصویری البم: ڈاکٹر جمیل جالبی  کی کہانی تصویروں کی زبانی پڑھنی ہو تو ان تیس (۳۰) البموں کی ورق گردانی کیجئے  جو شعبہ نادرات میں موجود ہیں۔ یہ تصاویر زیادہ تر سفید و سیاہ، تقریباً نصف رنگین اور کچھ مختلف مصوروں کے شاہکار ہیں۔ ان تصاویر سے ڈاکٹر جمیل جالبی کی زندگی کے مختلف ادوار سے آشنا ہوا جا سکتا ہے، خاندانی تصاویر سے رشتوں اور اشکال کا ادراک ہو سکتا ہے مختلف، علمی، ادبی و عمومی اداروں اور ان کے سربراہوں کے ساتھ تجسیم ہوئی ہے۔ غرض یہ تصاویر بھی ان کے تعلقات کی عکاس ہیں۔ بہت سی تصاویر لفافوں میں ہیں جو ابھی ترتیب نہیں پا سکیں۔

سمعی و بصری معاونین: ذخیرہ میں ٹیپ ریکارڈ، فلاپی ڈسکس، سی۔ ڈیز وغیرہ ہیں ان کی دو اقسام ہیں ایک تو وہ جو ڈاکٹر جمیل جالبی کی آواز میں ہیں مثلاً مختلف تقاریب میں خطبات، اور دوسرے وہ آوازیں اور پروگرام جن میں وہ بحیثیت، مقرر، صدر یا مہمانِ خصوصی شریک ہوئے۔ ان معاونین میں ریڈیائی تقاریر یا ٹیلی ویژن پر دیئے گئے خطبات شامل ہیں اور یہ بھی ان کی زندگی کے ایک رُخ کی عکاسی کرتے ہیں۔