About Library

لائبریری کے بارے میں

قیام:۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان وجود میں آیا۔ اس کتب خانہ کی تشکیل جدید ڈاکٹر جمیل جالبی کے ہاتھوں سنگ بنیاد کی تنصیب مورخہ ۱۴، اگست ۲۰۱۶ء کو جامعہ کراچی میں ہوائی۔ جمیل جالبی فاؤنڈیشن کا یہ ایک منصوبہ ہے جو تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ اس فاؤنڈیشن کے روح رواں ڈاکٹر خاور جمیل اور خانوادہ جمیل جالبی ہے۔

عمارت: سفید رنگ کی یہ خوبصورت عمارت جامعہ کراچی کے مرکزی کتب خانے “ڈاکٹر محمود حسین لائبریری” کے پہلو میں واقع ہے۔ اس عمارت کی تعمیر کرتے ہوئے یہ خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اس کی مماثلت مرکزی لائبریری سے بھی رہے اور جدید فن تعمیر کا نمونہ بھی ہو۔ اس عمارت کے مکمل ہونے میں تین سال لگے اور تعمیر کے فن کا یہ ایک مثالی نمونہ ہے۔

بیگم نسیم شاہین ہال : فرشی منزل پر بیگم نسیم شاہین ہال ڈاکٹر جمیل جالبی کی بیگم کے نام پر ہے۔ اس میں ان کی ایک نادر تصویر آویزاں ہے۔ہال ائرکنڈیشن ہے اس ہال میں ۱۰۰ نشستیں ہیں ۔ اسٹیج پر گنجائش اس کے علاوہ ہے یہ کھلی ہوئی روشن جگہ ہے جہاں ایک طرف فاؤنڈیشن کے صدر کا دفتر اور ان کے معاون کا کمرہ ہے۔ ہال کی دوسری جانب طہارتِ خانے اور ایک مختصر سا باورچی خانہ ہے۔ جہاں مہمانوں کی خاطر تواضح کا سامان کیا جاتا ہے۔ اس ہال میں جدید تکنیکی آلات موجود ہیں۔ہر تقریب کا حال تصویری صورت میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ اب تک یہاں کئی کامیاب پروگرام منعقد کئے جاچکے ہیں۔ ہال کے ساتھ ایک مختصر سا باغیچہ ہے جو خوشنما پودوں سے مرصع ہے۔ گیٹ سے داخل ہوں تو ایک ڈھلوانی راستہ ہے جس کے اطراف سیڑھیاں بھی بنی ہوئی ہیں۔ دائیں جانب تقاریب کی نگراں کا کمرہ ہے بائیں جانب کمیٹی روم ہے جہاں ملاقاتیں ہوتی ہیں اور اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں۔ یہاں ۱۲۔ افراد کی نشستیں ہیں۔ ساتھ ہی مہمانوں اور عملہ کے لئےطہارت خانہ ہے۔ گیٹ کے سامنے سرسبز پودوں کی پشت پر کتب خانے کا نام لکھا ہوا ہے اور ایک چبوترا ہے جس پر خاص مواقع پر جھنڈا لہرایا جاتا ہے۔
ڈھلوان راستہ سے گزر کر پہلی منزل پر پہنچتے ہیں۔ یہاں سب سے پہلے نظر ڈاکٹر جمیل جالبی کی آویزاں تصویر پر پڑتی ہے جسے ایک نوجوان مصور شمیم باذل نے بڑی محنت اور توجہ سے بنایا ہے۔ اس کے نیچے نہایت عمدہ محققین کے سامان رکھنے کے خانے بنے ہوئے ہیں۔ داخل ہوتے ہی سامنے استقبالیہ کی میز ہے۔ یہ عام مطالعہ گاہ ہے جہاں مختصر میزیں اور کرسیاں نصب ہیں۔ شیشے کی کھڑکیوں پر خوبصورت پردے (بلائنڈز) پڑے ہوئے ہیں۔ سامنے لفٹ کا دروازہ ہے جو دوسری منزل تک جاتا ہے۔
اس ہال سے چند سیڑھیاں اتریں تو ایک فرشی ہال میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ مطبوعہ کتب کی رسدگاہ ہے شاندار اور قد آور الماریوں میں ڈاکٹر جمیل جالبی کا علمی ورثہ مختلف موضوعات کے تحت مرتب ہے۔ عقبی دروازہ کے ساتھ طہات خانے اور اسٹور ہے۔ فرشی منزل سے چند سیڑھیاں چڑھ کر دوچھتی پر بنا ہوا ایک کمرہ ہے جہاں خاص محققین کے مطالعہ کے لئے نشستیں دستیاب ہیں۔
دوسری منزل تک جانے کے لئے زینے بھی ہیں اور لفٹ بھی لفٹ کے ذریعہ ایک ہال میں پہنچتے ہیں جس کے دونوں سروں پر کھڑکیاں ہیں اور ہر ایک کے قریب ۸۔۸ قارئین کی میزیں ہیں۔ یہ منزل رسائل اور خصوصی مواد نیز لائبریری کی دیگر خدمات کے لیے مختص ہے۔ دائیں ہاتھ پر لفٹ کے ساتھ لائبریرین کا کمرہ ہے۔ اس سے متصل ایک مختصر باورچی خانہ اور طہارت خانے ہیں۔ لائبریرین کے کمرہ میں ائیرکنڈیشنز موجود ہے۔ اس منزل پر دائیں طرف گلیارے میں چھوٹے شیشہ کے کمرے ہیں۔ پہلا کمرہ لائبریری کے منتظم کا ہے دوسرا اسسٹنٹ لائبریرینز کے استعمال میں ہے ان دونوں کے مقابل تکنیکی و اطلاعاتی (آئی۔ ٹی) کمرہ ہے یہاں لائبریری میں لگے ہوئے تمام کیمروں کے ذریعہ آمدورفت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ یہاں کمپیوٹرز، پرنٹرز اور اسکینرز بھی موجود ہیں۔ اسی گلیارے میں آگے جائیں تو مخطوطات و دستاویزات اور اعزازات کے کمرےہیں۔ اس منزل پر قدیم و نادر کتب، رسائل و جرائد، دستخط شدہ کتب کے شعبہ ہیں۔ یہاں گوشہ جمیل جالبی ہے جس میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی تصانیف کے قدیم و جدید ایڈیشن ہیں۔ اخباری تراشوں کی فائلیں ہیں اور گوشہ خاور جمیل ہے۔ عمارت مختصر مگر خوبصورت ہے۔
مجلس مشاورت: لائبریری کے انتظام و انصرام کے لئے ایک مجلس مشاورت قائم کی گئی ہے جس میں مختلف مضامین کے ماہرین شامل ہیں صدر فاؤنڈیشن ہوتے ہیں باقی سب مشیر ہیں۔ ان میں ادب کے دونمائندے، ادبی و علمی معاملات پر رائے دیتے ہیں اقتصادی امور پر دونمائندے بجٹ اور دیگر اخراجات پر مشیر ہوتے ہیں انتظامی معاملات کی دیکھ بھال بھی دو مشیروں کے ذمہ ہے شعبہ تعلیم کے مشیر علمی معاملات پر مشورے دیتے ہیں دو مشیر لائبریری معاملات پر ماہرانہ و پیشہ ورانہ امور پر نظر رکھتے ہیں۔ مختلف امور پر ماہرین کا یہ مجموعہ کل معاملات پر بحث کے بعد منظوری دیتا ہے مجموعی طور پر انتظامیہ میں نگران اعلیٰ، منتظم اور دیگر عملہ شامل ہے۔ لائبریری کی ذیلی کمیٹی لائبریری امور کا جائزہ لے کر تجاویز کی روشنی میں منظوری دیتی ہے۔ تقریبات کی تجاویز تقاریب کے نگراں کی ذمہ داری ہے جسے مجلس مشاورت منظور کرتی ہے۔ یوں لائبریری کے انتظامی، مطبوعاتی و تقریباتی امور ایک تسلسل اور ترتیب کے ساتھ انجام پاتے ہیں ہر ماہ کے آخری ہفتہ میں صدریہ اجلاس طلب فرماتے ہیں اور فیصلے صادر فرماتے ہیں۔

لائبریری عملہ: لائبریری عملہ کی تعداد محدود ہے۔ ایک لائبریرین، ۲ اسسٹنٹ لائبریرین (ایک عموی اور ایک خصوصی) ایک حوالہ جاتی اسسٹنٹ اور دوڈیٹا انٹری کرنے والے افراد موجود ہیں۔ شعبہ مخطوطات کے نگراں جزوقتی ہیں۔ ایک جلد ساز کی خدمات جزوقتی حاصل کی گئی ہیں۔ کتابوں کے دو ترتیب کار ہیں جو پیشہ ور نہیں ہیں لیکن الماریوں پر کتابوں و رسائل کی ترتیب کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک خدمتگار، دو فراش اور مالی و چوکیدار ہیں۔

لائبریری کے اوقات کار:  لائبریری کے اوقات عام دنوں میں ۹۔۵ تک ہیں ہفتہ و اتوار تعطیل ہوتی ہے۔ لائبریری چونکہ محققین کے لئے خاص ہے اس لئے لائبریری میں ہر شخص کو رکنیت فارم دیا جاتا ہے جس پر محقق اور تحقیق کی نوعیت متعلقہ شعبہ سے تصدیق شدہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد لائبریری کارڈ ایک سال کے لئے جاری کردیا جاتا ہے چونکہ یہ ریسرچ لائبریری ہے اس لئے حوالہ جاتی مواد جاری نہیں کیا جاتا البتہ مختلف مفید مطلب مواد نقل کی صورت مہیا کر دیا جاتا ہے۔ اس کا فیصلہ لائبریری کمیٹی کرتی ہے۔ رکنیت سازی شروع ہوچکی ہے۔

لائبریری سہولیات: لائبریری میں ہوا۔ روشنی کا معقول بندوبست ہے۔ بجلی، شمسی نظام، بجلی بنانے والی مشینیں ہیں کیمروں کا بندوبست ہے جو پوری لائبریری کی صورت حال ریکارڈ کرتے ہیں، آگ بجھانے کے آلات دستیاب ہیں عملہ کے استعمال کے لئے پوری عمارت میں طہارت خانے اور کھانے گرم کرنے کے لئے مختصر باورچی خانے ہیں لائبریری کی ایک گاڑی دفتری کاموں کے لئے موجود ہے جو لائبریری منتظم کے اختیار میں ہے۔ ٹھنڈے پانی کی مشینیں دستیاب ہیں۔ کمپیوٹر، پرنٹر اسکینر، فوٹو کاپی مشین موجود ہے۔ 

علمی و ادبی ذخائر: ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری میں علمی و ادبی ذخائر مختلف انواع کے ہیں۔ ان میں کتب، رسائل اخبارات، دستخط شدہ کتب، قدیم و نادر کتب، مخطوطات، نوادرات، اعزازات، تصاویر، اخباری تراشے، خطوط خطبات، تحقیقی مقالات وغیرہ شامل ہیں۔ 

کتب بلحاظ زبان: کتابیں بلحاظ زبان اردو، انگریزی ، سندھی، فارسی، عربی، ہندی  اور بلوچی پر مشتمل ہیں ۔ اس کے علاوہ بچوں کی کتابیں بھی ہیں۔ ذخیرہ میں سب سے زیادہ کتب اردو میں اور دوسرے نمبر پر انگریزی میں ہیں۔

کتب بلحاظ موضوعات: کتابوں کی درجہ بندی ڈیوی ڈیسیمل درجہ بندی اسکیم کے ۲۳ ایڈیشن کے مطابق کی گئی ہے۔ اسکے بنیادی دس درجوں کے مطابق کتابوں کی تعداد درج ذیل ہے۔ 

الف) عمومی علوم: اردو ۱۰۵۶ انگریزی ۱۵۵ کل ۱۲۰۰۔

ب) فلسفہ و متعلقات: اردو ۲۰۳ انگریزی ۷۷ کل ۲۸۰۔

پ) مذاہب: اردو ۸۹۲ انگریزی ۲۹۵ کل ۱۴۶۷۔

ت) عمرانی علوم: اردو ۴۶۵، انگریزی ۴۲۴ کل ۸۸۹۔

ٹ) لسانیات: اردو ۷۰۸، انگریزی ۱۸۴ کل ۸۹۲۔

ث) فطری علوم: اردو ۱۴۵، انگریزی ۳۰ کل تعداد ۱۷۵۔

ج) اطلاتی علوم: اردو ۴۰ ، انگریزی ۳۹ کل تعداد ۷۹۔

چ) فنون: اردو ۱۰۳، انگریزی ۴۴ کل ۱۴۷۔

ح) ادبیات: اردو ۲۷۴۵۳، انگریزی ۶۶۹ کل تعداد ۲۸۱۲۲۔

خ) جغرافیہ/ تاریخ: اردو ۲۶۱۹، انگریزی ۶۴۹ کل تعداد ۳۲۶۸۔

د) بچوں کی کتب: اردو، سندھی، انگریزی ۲۳۰۔

کتابوں کی کل تعداد ۳۶۸۸۰ ہے۔ اضافی نقول اس کے علاوہ ہیں۔

ذخیرہ رسائل، جرائد: ڈاکٹر جمیل جالبی لائبریری میں اردو، انگریزی، سندھی اور فارسی رسائل عنوانی ترتیب میں رکھے گئے ہیں۔ اردو میں رسائل بھی ہیں اور مجلات بھی، ایک بڑی تعداد ان رسائل کی الگ ذخیرہ کی گئی ہے جنہوں نے تاریخ، تنقید، اضاف شخصیات وغیرہ پر خصوصی نمبر شائع کر کے محققین کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
اردو رسائل: عنوانات ۵۲ شمارے ۴۸۴۱۔  
اردو رسائل خصوصی شمارے: عنوانات ۲۲۳، شمارے ۳۴۳۔ 
اردو رسائل مجلات: عنوانات ۴۰ شمارے ۸۳۔ 
انگریزی رسائل: عنوانات ۸۶ شمارے ۲۹۔ 
انگریزی مجلات: عنوانات ۳ شمارے ۳۔
 سندھی رسائل: عنوانات ۱۹ شمارے ۲۸۔
فارسی رسائل: عنوانات ۴ شمارے ۲۷۔
گوشہ غالبیات: غالب اردو ادب کے وہ آفاقی شاعر، ادیب، خطوط نگار ہیں جنہیں اردو اور فارسی پر دسترس تھی۔ وہ اپنی ندرتِ فکر اسلوبِ بیان اور تدبر کے باعث عالمگیر شہرت کے حامل ہیں۔ میر تقی میر کے بعد ڈاکٹر جمیل جالبی نے غالب کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا۔ غالب پر اردو فارسی مآخذ جمع کیے، ترتیب دیئے اور انتہائی ذمہ داری سے تحقیق کے موتی پرو ئے۔ غالبیات میں غالب کی تحریریں، دواوین، کلیات اور نثری تخلیقات ہیں۔
اس حصّہ میں غالبیات اردو کتب، غالبیات انگریزی کتب، غالبیات فارسی کتب اور غالب پر رسائل کے خصوصی شمارے شامل ہیں۔ انکا اندراج نامہ مرتب ہو چکا ہے۔ غالبیات میں دو اقسامِ مواد شامل ہیں۔ غالب کی اپنی تخلیقات اور ان پر دوسروں کی لکھی ہوئی تحریریں یہ پورا گوشہ درجہ بند کیا جا چکا ہے۔ مستقبل میں تحقیق کرنے والے غالب شناس بننا چاہیں تو غالب پر بنیادی مآخذ تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اس گوشہ میں ۱۸۸۷ میں شائع ہونے والی کتب عودِ ہندی، ۱۸۹۹ء کی حیاتِ غالب، ۱۸۹۷ء کی یاد گارِ غالب، تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستانی، جامعہ ملیہ، غالب انسٹی ٹیوٹ کی مطبوعات بھی ہیں غالب پر فارسی مطبوعات ادارہ یاد گارِ غالب اور انجمن ترقی اردو کی مطبوعات ہیں۔
رسائل کے نمبروں کی تعداد تیس (۳۰) ہے۔ غالب پر اردو کتب کی تعداد ۳۰۰، انگریزی کتب کی تعداد ۹، فارسی کتب کی تعداد ۳۳ کل تعداد ۳۴۲ ہے۔ اگر کتب و رسائل کے خاص نمبر شمار کیے جائیں تو کل تعداد ۳۷۲ ہوتی ہے۔
گوشہ سر سید احمد خاں: اردو ادب کی نثری تاریخ میں سر سید احمد خاں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ علی گڑھ تحریک کے کارواں سالار رہے، جدت پسند تھے۔ فکر فلسفیانہ تھی، جدید تعلیم کے فوائد سے آگاہ تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے مصلح تھے۔
سر سید نے دو خونوشت سوانح عمریاں لکھیں، ۲ سفر نامے لکھے، علی گڑھ تحریک کے تحت تعلیمی اداروں کی سر پرستی کی، ادب میں تاریخ فنِ تعمیر “آثا الصنادید” کی صورت میں مرتب کی، شعلہ بیان مقرر تھے۔ خطباتِ احمدیہ ” اس کا ثبوت ہیں۔ سر سید کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ گہرا تھا انہوں نے مسلسل مضامین لکھے ان کے مقالات ۱۶ ضخیم جلدوں میں شائع ہوئے۔ خلیق احمد نظامی نے انہیں جدید ہندوستان کا معمار قرار دیا، انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق کا اجراء کیا گوشہ سر سید میں کتابوں کی تعداد مختصر ہے کل ۱۴۴ کتابیں ہیں ان میں سر سید کی تحریر کردہ ۳۳ ہیں۔ دو عربی میں ۲ فارسی میں ۲۹ اردو میں ہیں۔ سر سید کے بارے میں ۱۱۰ کتابیں ہیں ان میں دو کتابیات یعنی حوالہ کی کتابیں ہیں”۔ کتابیات سر سید” اور سر سید احمد خاں تحقیقی و مطالعاتی مآخذ، بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ سر سید ایک عمدہ شاعر بھی تھے خصوصاً فارسی کلام لائق ستائش ہے اسکا ایک عمدہ نمونہ “صائمہ قدیر اور فرزانہ عباس کی مرتبہ “سر سید احمد خاں: منظوم نذرانہ ہائے عقیدت کے سرورق پر پڑھا جا سکتا ہے۔ گوشہ سر سیدمیں ۱۹۶۰ سے ۲۰۰۹ء تک کی مطبوعہ کتب موجود ہیں۔ رسائل کے سر سید نمبر اس کے علاوہ ہیں۔ سر سید پر لکھنے والوں میں نمایاں نام مولوی عبد الحق اور محمد اسماعیل پانی پتی کے ہیں۔ جو سر سید کے افکار و حالات پر مبنی ہیں اور اسماعیل پانی پتی نے نہایت محنت اور محبت سے مقالات سر سید کی ۱۶ جلدیں مرتب کیں جس میں مقالات کو موضوع وار تریب دیا گیا ہے۔ اس حصّہ میں شامل مطبوعات ہندوستان اور پاکستان کے نامور ناشرین، انجمن ترقی اردو، مجلس ترقی ادب، سر سید اکیڈمی علی گڑھ، مکتبہ جامعہ دہلی، لائبریری پروموشن بیورو، مقتدرہ قومی زبان قومی کاؤنسل برائے فروغ اردو نئی دہلی نے شائع کی ہیں۔ 
 
گوشہ اقبالیات: علامہ اقبال نے میونخ یونیورسٹی میں جو تحقیقی مقالہ ۱۹۰۸ء میں پیش کیا اسکے آغاز میں “داستانِ حیات” کے عنوان کے تحت اپنی تاریخ پیدائش ۱۳ ذی الحج ۱۲۹۴ھ مطابق ۹ نومبر ۱۸۷۷ء درج کی۔ ۱۸۸۷ میں پرائمری، ۱۸۹۲ میں میٹرک پاس کیا۔ ۱۸۹۳ء میں پہلی شادی کریم بی بی سے ہوئی ۱۸۹۷ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے پاس کیا۔ خان بہادر جمال الدین میڈل حاصل کیا۔ ۱۸۹۹ء میں ایم۔ اے پاس کیا اور خان بہادر مانک بخش “میڈل حاصل کیا۔۱۸۹۹ء میں یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور میں عربی ریڈر کی حیثیت سے تقرر ہوا ما بعد اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر   کے عہدوں پر فائز رہے۔ ۹ فروری ۱۹۰۱ء کو مشہور رسالہ “مخزن” میں پہلی نظم شائع ہوئی۔ ۱۹۰۲ میں پہلا مضمون “بچوں کی تعلیم و تربیت” پر لکھا۔ معاشیات کے مسائل پر پہلی کتاب “علم الاقتصاد” ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی۔ ۱۹۰۵ء میں کیمبرج یونیورسٹی گئے یہاں عطیہ فیضی سے دوستی ہوئی۔ ۴ نومبر ۱۹۰۷ ڈاکٹریس فلاسوفیل گریڈیم کا اعزاز حاصل ہوا۔ ڈیولپمنٹ آف میٹا فزکس ان پرشیا پہلی بار ۱۹۰۸ء میں لندن سے شائع ہوئی۔ لاہور میں بیرسٹری ۱۹۰۸ء میں شروع کی۔ اقبال کا دوسرا نکاح سردار بیگم سے ہوا ۱۹۰۹ء میں۔ رخصتی عمل میں نہیں آئی۔ ۱۹۱۱ء میں اقبال گورنمنٹ کا لج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے ۱۹۱۳ء میں سردار بیگم سے دوبارہ نکاح کیا اور رخصتی ہوئی۔ اسی سال “اسرار خودی مکمل ہوئی۔ “فریاد امت” بھی اسی سال شائع ہوئی۔ ۹ نومبر ۱۹۱۴ء کو اقبال کی والدہ نے رحلت کی ۱۹۱۶ کریم بی بی سے علیحدگی ہو گئی لیکن اقبال کفالت کرتے رہے یکم جولائی ۱۹۱۷ء مثنوی رموزِ  بے خودی مکمل ہوئی اور ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ ۱۹۹۳ء میں پیام مشرق دہلی اور لاہور سے شائع ہوئی۔ اسی سال ایڈورڈ میکلاگن نے سرکا خطاب دیا۔ طلوعِ اسلام لاہور سے شیخ مبارک علی نے شائع کی۔ ۱۴ جنوری ۱۹۲۴ء کلیاتِ اقبال مرتبہ مولوی عبد الحق دہلی سے شائع ہوئی ۲۱ مئی ۱۹۲۴ء کو انجمن حمایتِ اسلام کے صدر مقرر ہوئے۔ دسمبر ۱۹۲۴ء دوسری بیگم سے جاوید اقبال پیدا ہوئے۔ اور بانگِ دار پہلی بار شائع ہوئی۔
فارسی غزلوں کا مجموعہ “زبورِ عجم” ۱۹۲۷ میں شائع ہوا ۲۴ مارچ ۱۹۲۹ء “پیام مشرق” مکمل ہوئی۔ ۱۹۳۰ میں دوسری صاحبزادی منیرہ بیگم پیدا ہوئیں۔ اسی سال سکس لکچرز آن دی ری کنسٹرشن آف دی  رلی جیس تھاٹ ان اسلام” لاہور سے شائع ہوئی۔ ۱۷ اگست ۱۹۳۰ء کو والد شیخ نور محمد انتقال کرگئے ۔
۸ نومبر ۱۹۳۰ء مسلم کانفرس مراد آباد میں شرکت کی۔ ۴ دسمبر ۱۹۳۰ء کو مسلم لیگ کی مجلس استقبالیہ کا اجلاس آپ کی جائے سکونت پر ہوا ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبہ صدارت دیا۔ ۶ نومبر ۱۹۳۱ کو اقبال لٹریری ایسوسی ایشن نے آپکے اعزاز میں عصرا نہ دیا۔ ۱۹۳۱ میں روم، اٹلی اور اسپین کے سفر کئے اسکندریہ گئے اہرام دیکھے، جامعہ ازہر کا دورہ کیا کتابیں وصول کیں۔ موتمر عالم اسلامی میں الوداعی نقریر کی و ۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء کو وطن واپس پہنچ گئے۔ ۱۹۳۲ء میں “جاوید نامہ” اور مثنوی “پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق” شائع ہوئی۔ نیرنگِ خیال ” کا اقبال نمبر اکتوبر ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا “آئینہ عجم” میٹرک کے طلباء کے لیے فارسی نظم و نثر مرتب کی یہ لاہور سے شائع ہوئی۔ ۴ دسمبر ۱۹۳۳ء کو نشانِ منزل کا نام بدل کر “بال جبرئیل” تجویز کیا یہ ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئی۔ ۲۳ مئی ۱۹۳۵ کو سردار بیگم دوسری اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ ۱۹۳۶ میں مجلسِ شوریٰ” کے نام سے طویل نظم لکھی اردو کا تیسرا مجموعہ “ضرب کلیم” اور “پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق” شائع ہوئی۔ جولائی، ۱۹۳۶ میں “ضربِ کلیم” شائع ہوئی۔
۲۱۔ اپریل، ۱۹۳۸ء کو فجر کے وقت انتقال فرمایا۔ اپریل ہی میں محمد ابو اللیث صدیقی نے علی گڑھ میگزین کا اقبال نمبر شائع کیا مئی میں شیرازہ کا اقبال نمبر، جون میں احسان اور سب رس کے اقبال نمبر شائع ہوئے۔ جولائی میں تاج کا اقبال نمبر اور اکتوبر میں اردو کا اقبال نمبر مولوی عبد الحق کی ادارت میں انجمن ترقی اردو نے شائع کیا۔
 علامہ اقبال انجمن حمایتِ اسلام کے صدر رہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل تھے۔ اقبال لٹریری اسوسی ایشن ۱۹۳۰ میں تشکیل پائی اسکے بعد بزمِ اقبال، اقبال اکیڈمی قائم ہوئیں۔ اسلام تصوف، فلسفہ، شاعری ان کے خاص رنگ ہیں۔ اقبال کا تصورِ عشق، خودی، ما بعد الطبیعات، تصورِ قومیت تصورِ زمان و مکان، علم الکلام، بقائے دوام اور تصوف ان کی فکر کی مختلف جہات ہیں۔
مختلف تحریکات سے بھی اقبال کی وابستگی رہی مثلاً تحریک آزادی فلسطین، آزادی کشمیر وغیرہ۔ ۱۹۳۳ء میں پنجاب یونیورسٹی نے انہیں “ڈاکٹر آف لٹریچر” کی ڈگری عطا کی۔ اقبال کی شاعری پر فارسی کا گہرا اثر ہے۔ فارسی میں ان کی غزل گوئی عروج پر نظر آتی ہے۔ تحریک پاکستان میں بھی اقبال قائدِ اعظم کے ساتھ تھے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری کے ذخائر میں ایک گوشہ “اقبالیات” کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ اس ذخیرہ میں اردو کی ۶۶۰، فارسی کی ۱۰،سندھی کی ۱، انگریزی کی  ۷۴ کتابیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ۱۲ رسائل کے اقبال نمبر بھی شامل ہیں۔ مثلاً رگِ سنگ، راوی، سیارہ ڈائیجسٹ، صریر خامہ، گورڈوسین، نقوش، نگار، وغیرہ۔ ۱۹۹۷ء میں اقبال کی صدی تقریبات دنیا بھر میں منائی گئیں۔ بہت سی کتابیں اور رسائل کے اقبال نمبر اسی سال شائع ہوئے اس حصہ میں اقبال پر شائع ہونے والے اشاریے اور کتابیات بھی شامل ہیں۔ مثلاً کلیدِ اقبال “آئینہ ایامِ اقبال” اشاریہ مکاتیبِ اقبال ” “تحقیقِ اقبالیات کے مآخذ ” وغیرہ۔
ذخیرہ میں اقبال کی تخلیقات اور ان کے بارے میں کتب و رسائل شامل ہیں۔ مثلاً کلیاتِ اقبال اردو فارسی پہلا کلیات مولوی عبد الحق کا مرتبہ ہے۔ مثنویات دواوین، خطبات، مضامین و مقالات، مکتوبات وغیرہ ہیں۔ ان کے بارے میں لکھی ہوئی کتابوں میں اقبال کا  تعلق افراد، شہروں، تحریکات اور زندگی کے مختلف موضوعات سے ظاہر ہوتا ہے۔
خدمات: ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری میں درج ذیل خدمات انجام دی جاتی ہیں۔
منصوبہ بندی: ایک سال کے دوران جو امور انجام پانے ہیں ان کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
بجٹ سازی: یکم جولائی سے ۳۰ جون تک کا میزانیہ مرتب کیا جاتا ہے۔
حصولیات: منتخب ادبی و علمی مواد کا حصول بذریعہ خریداری و عطیہ کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے بارے میں شائع ہونے والے مقالات، کتب، رسائل کے خصوصی نمبر، اخباری مضامین و تراشے، سمعی و بصری مواد حاصل کیا جاتا ہے اگر اصل ملنا ممکن نہ ہو تو اسکی عکسی نقل حاصل کی جاتی ہے۔
فنی امور کی انجام دہی: علمی و ادبی مواد کی موضوعی درجہ بندی کی جاتی ہے ثانوی ترتیب مصنفی ہوتی ہے۔ ان امور کی انجام دہی کے لئےڈیوی ڈیسمل کلاس فی کیشن اسکیم کا ۲۳ واں  ایڈیشن استعمال کیا جاتا ہے۔ علمی، ادبی، کتابیاتی معلومات کے لئے مختلف اقسام کے ڈیٹاشیٹ تیار کئے جاتے ہیں اور معلومات کمپیوٹر پر منتقل کی جاتی ہیں۔
معلومات کی بہم رسانی: معلومات کے حصول اور ترتیب کے بعد ترسیل کی جاتی ہے۔ یہ معلومات مخطوطات، مسودات، حوالہ جاتی کتب و رسائل، اشاریہ سازی، تحقیقی مقالات، کیٹلاگ سازی، اخبار نویسی، سمعی و بصری  مصاونین سے حاصل کر کے محققین کو فراہم کی جاتی ہیں۔ اسکے علاوہ عکسی نقول خدمات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
تحفظ معلومات: یہ ایک شخصی کتب خانہ ہے اور یہاں قدیم و نادر مواد بھی ہے۔ نوادرات بھی ہیں اور اخباری تراشے و مخطوطات و خطوط بھی۔ ان کی حفاظت کے لئےسیلوفن، گتہ، پلاسٹک فولڈرز، کاغذی لفافے استعمال کئے جاتے ہیں۔ منتخب اور مختصر معلومات کمپیوٹرپر محفوظ کر نے کا عمل بھی جاری ہے۔ ایک معینہ وقفہ کے بعد لائبریری میں کیٹرے مار دواؤں کا چھٹرکاؤ تعطیل کے دوران کیا جاتا ہے۔ بوسیدہ اوراق و صفحات کی جلد بندی کروائی جاتی ہے۔ کمپیوٹر پر معلومات کی حفاظت کلیدی  لفظ (پاسورڈ) کے ذریعہ کی جاتی ہے ان میں معینہ وقفہ سے تبدیلی کی جاتی ہے۔
توسیعی خدمات: کتب خانے کی توسیعی خدمات کے لیے نسیم شاہین آڈیٹوریم بنایا گیا ہے اس میں سمعی و بصری آلات موجود ہیں۔ یہاں کتابوں کی پذیرائی، اسلاف کی یاد میں پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف تہواروں پر دعوتِ طعام کا اہتمام کیا جاتا ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں نہ صرف مشاہیر علم و ادب بلکہ نوجوانوں کی بھی پذیرائی کے پروگرام ہوتے ہیں اور مہمانوں کو کتابوں کے تحائف اور یادگاری نشانات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ کام تسلسل سے ہو رہا ہے۔ کتب خانے کی شہرت کے لیے دستاویزی فلم بنائی گئی ہے مزید بنوانے کا بھی ارادہ  ہے مطبوعاتی پروگرام میں بھی ڈاکٹر جمیل جالبی لائبریری ایک تعارف کتابچہ شائع کیا گیا ہے جو لائبریری کے قیام اور مقاصد پر مختصر معلومات فراہم کرتا ہے۔
مطبوعات: لائبریری مطبوعات لائبریری کی خاموش مگر موثر سفیر ہوتی ہیں۔ یہ بات باعثِ فخر ہے کہ ابھی جمیل جالبی لائبریری کی عمارت مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اس پر کام شروع ہو گیا۔ ۴ سال کے دوران یعنی ۲۰۱۹ء سے ۲۰۲۳ کے دوران ۲۰ کتابیں اور ایک رسالہ شائع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر خاور جمیل کی سرپرستی اور نگرانی میں یہ کام خوش اسلوبی سے جاری ہے۔ اس شعبہ کے تحت جو مطبوعات شائع ہوئیں انکا جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر کتاب کی ساخت، موضوع اور پیرا یہ اظہار ریگانہ ہے۔ ان کتابوں کے سرورق رنگین ہیں اور ان پر ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری اور ڈاکٹر جمیل جالبی فاؤنڈیشن کے مونوگرام ہیں۔ لائبریری کے داخلی دروازہ کی تصویر بھی ثبت ہے۔
کوشش یہ کی گئی ہے کہ مختلف النوع مواد کو فہرست کیا جائے اور اسے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیا جائے۔ ہم انہیں حوالہ جاتی کتب کہہ سکتے ہیں مثلاً ان کی وفات پر تعزیت نامے (۲۰۱۹) ڈاکٹر جمیل جالبی: حاصلات و امتیازات سے (۲۰۲۰) توسیعی خطبہ، ڈاکٹر جمیل جالبی عصری آگہی کے تناظر میں (۲۰۲۰) تنقید، مصاحبات ڈاکٹرجمیل جالبی (۲۰۲۰) فکرِ جمیل، مکتوباتِ مشاہیر بنام ڈاکٹر جمیل جالبی (۲۰۲۱) مشاہیر کے خطوط، ڈاکٹر جمیل جالبی کے نام ڈاکٹر نسیم فاطمہ کے خطوط (۲۰۲۱) شاگرد کے خط استاد کے نام، ڈاکٹر جمیل جالبی کے نام نامور خواتین کے خطوط (۲۰۲۱) نسائی خطوط نگاری، مکاتیب ڈاکٹر جمیل جالبی (۲۰۲۱) جمیل جالبی کی خطوط نگاری، ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری، (۲۰۲۲ء) تعارفی کتابچہ، ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری میں تحقیقی مقالات (۲۰۲۲ء) کیٹلاگ اور اختصاریہ، ڈاکٹر جمیل جالبی اور تخلیقی امتزاج کا نظریہ (۲۰۲۲) تحقیقی مقالہ، ڈاکٹر جمیل جالبی کی علمی و ادبی جہات (۲۰۲۳) تحقیقی مقالہ۔ ان عنوانات اور توضیحات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ لائبریری مطبوعات میں تنوع پایا جاتا ہے کتابیاتی و معلوماتی مواد محقق اور مصنف کے لیے کار آمد ہے یہ مزید تحقیق کے لیےرہنمائی کا فرض ادا کرنے والی حوالہ جاتی کتب ہیں۔
۲۰۲۱ء میں جمیل جالبی کی دوسری برسی کے موقع پر یاد گاری مجلہ کی اشاعت ہوئی۔ سرورق پر جمیل جالبی اور ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری کی تصویر ہے۔ اس رسالہ میں ڈاکٹر جمیل جالبی کے بارے میں مختلف لوگوں کے مضامین شامل ہیں جو تاثراتی بھی ہیں اور معلوماتی بھی۔
اس سلسلہ میں اقبالیات جدید ترین مطبوعہ ہے جو اقبال کی اپنی کتب، اقبال کے بارے میں اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں میں کتب اور رسائل کے خاص نمبروں پر مشتمل اندراج نامہ ہے۔