ڈاکٹر جمیل جالبی پاکستان کے شیدائی تھے نظری اور عملی دونوں طرح سے۔ پاکستان سے محبت انہوں نے بھر پور کی۔ ۱۳ اگست ۱۹۴۷ کو گھر کے افراد کو بتائے بغیر پاکستان آگئے اور ۱۴ اگست کا سورج پاکستان میں ابھرتے ہوئے دیکھا پھر ہمیشہ کے لیے پاکستان کے ہو گئے پاکستان کے لئے انہوں نے بہت کام کیے۔
“پاکستانی کلچر” کے عنوان سے جو کتاب لکھی اس نے پاکستان کے تشخص کو اجاگر کیا۔ “قومی اردو لغت” کے ذریعہ
ان الفاظ و اصطلاحات کو مرتب کیا جو پہلے شاملِ لغات نہیں تھے لیکن پاکستان کی قومی اور علاقائی زبانوں میں مروج تھے، انکا کہنا یہ تھا کہ
’’اردو اس برعظیم کی اجتماعی روح کا واحد اظہار ہے یہ اشتراک کی زبان ہے محبت کی زبان ہے اور مختلف علاقوں کے رہنے والوں کو قریب تر لانے کا واحد ذریعہ ہے یہ زبان تحریک پاکستان کا حصّہ تھی‘‘
“تاریخِ ادب اردو” ڈاکٹر جمیل جالبی اب جس کا ایک حصہ بن گئے پاکستان کی ادبی تاریخ و تنقید میں منفرد مقام رکھتی ہے اور پاکستانی مورخین ادب کے لیے ایک چراغ راہ ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی انگریزی ادب کے طالبعلم تھے اس کی اہمیت کو محسوس کیا لیکن شاہکاروں کے اردو میں ترجمے کر کے قومی زبان کو ثروت عطا کی۔ مثلاً مقتدرہ قومی زبان کے ادارہ میں خدمات کے دوران خود لفظ “مقتدرہ” اتھارٹی کا نہایت جامع ترجمہ کیا۔ انہوں نے نئی اصطلاحات وضح کیں مثلاً “تحقید” کا لفظ تحقیق و تنقید کے امتزاج سے دستیاب ہوا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنے دور میں جامعہ کراچی کو ایک مثالی تحقیقی ادارہ بنایا، عمدہ تحقیق پر ترقیاں اور انعامات کا اعلان کر کے جامعہ کراچی کے اساتذہ میں ذوقِ مطالعہ پروان چڑھایا اور تحقیق کی ہنر مندی میں اضافہ کیا یوں پاکستانی کلچر میں تحقیقی کلچر کو رواج دیا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے پاکستانی طالبعلموں میں غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا تا کہ نوجوان نسل اپنی اہلیت کو بہتر بنائے اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پر رواں دوراں رہے۔ پاکستان کی قومی زبان کی تعریف میں فرمایا
اردو ایک ایسی زبان ہے جو ہماری اجتماعی سوچ، فکر، روایت، شعور اور امنگوں کی ترجمان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی ایک سچّے پاکستانی تھے جنہوں نے اپنی لوح و قلم سے پاکستان کا وقار بلند کیا اس کا اعتراف سرکاری طور پر بھی کیا گیا اور پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز “نشانِ امتیاز” بعد از مرگ انہیں عطا ہوا پاکستان سے محبت کا ایک ثبوت ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری ہے۔ عمرِ عزیز میں جو کچھ علمی، ادبی ،سائنسی میراث تھی وہ پاکستان کی جامعہ کراچی کو بخش دی تا کہ پاکستانی طالبعلم تحقیق کے میدان میں اس سے استفادہ کر سکیں۔
اللہ پاکستان کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور پاکستانیوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
پاکستان زندہ باد